آزمائش کی گھڑی میں جو بھر جائے گا
یاد رکھو کہ وہ بے موت ہی مر جائے گا
کسی کو معلوم تھا وہ راہ میں ملنے والا
اجنبی ہو کے بھلا دل میں اتر جائے گا
سوچتا رہتا ہوں گر گشتہ منزل ہو
ظلمت شب میں خدا جانے کدھر جانے کا
میرے حالات کے پھر ان پہ ہنسنے والے
تو بھی اک روز سر راہ بکھر جائے گا
کیا خبر تھی کہ وہ طوفانوں سے لڑنے والا
نا گہاں اپنی ہی پر چھائیں سے ڈر جائے گا
ظلم تو غیر منا اپنی کہ وہ دیا ہے
ختم ہو کر بھی مندر میں اتر جائے گا
یہاں رہتے نہیں حالات کسی کے اشرف
میل اور وہ بھی اک روز گھر جائے گا
مفتی اشرف لکھنوی
No comments:
Post a Comment